ملکی قوانین اور مسلم پرسنل لاء

از: مفتی محمد جعفر ملی رحمانی

 

*الحمد للہ رب العالمین والصلوة والسلام علی رسولہ الأمین سیدنا محمد وآلہ وصحبہ ومن تبعھم بإحسان إلی یوم الدین ، أما بعد!

انسان ، اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوقات میں مقامِ اشرفیت پر فائز ہے، اللہ رب العزت نے اپنی تمام مخلوقات کی غذائی ضرورتوں کا بھرپور انتظام فرمایا؛ لیکن انسان چوں کہ” بہیمیت “اور” ملکوتیت“ دونوں کا مجموعہ ہے؛ اس لیے جہاں اسے اپنی جسمانی بقا کے لیے مادی غذا کی ضرورت ہے، وہیں روحانیت کو باقی رکھنے کے لیے غذا ء روحانی کی بھی حاجت ہے، اللہ پاک کا لاکھ لاکھ شکر واحسان کہ اس نے اس کی ان دونوں غذاوٴں کا انتظام فرمایا، مادی غذاوٴں سے تو ہم اور آپ اچھی طرح واقف ہیں، روحانی غذاوٴں سے مراد انبیاء ورُسُل کی تعلیمات ہیں، جو انسانوں کو ایک جامع ومکمل نظامِ حیات سے روشناس کرواتی ہیں، سب سے آخر میں نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا گیا، اور آپ کے ذریعہ قیامت تک آنے والی تمام انسانیت کو جو مکمل نظامِ حیات دیا گیا ، اسی کا نام شریعتِ اسلامی ہے، اس شریعت کو جاننا فقہ اور جاننے والے کو فقیہ کہا جاتا ہے:

” الفقہ عبارة عن العلم والفھم ۔۔۔۔ ولکن صار بعرف العلماء عبارة عن العلم بالأحکام الشرعیة الثابتة لأفعال المکلفین“۔ (المستصفی من علم الأصول : ۱/۴ ، بیان حد أصول الفقہ)

 شریعتِ اسلامی کا مقصد انسانوں کی دنیوی واخروی سعادت ہے۔ وغایتہ الفوز بسعادة الدارین۔ (در مختار مع رد المحتار:۱/۱۲۱)،شریعتِ اسلامی اور دوسرے قانون ساز اداروں، پارلیمنٹوں اور اسمبلیوں میں یہی بنیادی فرق ہے۔

شریعت کے قوانین انسان کے تمام شعبوں ؛ عقائد، عبادات، معاملات، معاشرت اور اخلاق سب کو حاوی ہیں، شریعت کے قوانین میں وہ تقسیم نہیں جو آج کی بیشتر حکومتوں کے دستوروں میں پائی جاتی ہے، کہ ایک قسم کو پرسنل لاء(Personal Law)یعنی احوالِ شخصیہ کا نام دیا جاتا ہے، جو کسی انسان کی شخصی اور عائلی زندگی سے متعلق ہوتی ہے، اور اس کے متعلق یہ غلط تأثر دیا جاتا ہے کہ اس کے کرنے یا نہ کرنے کا اسے اختیار حاصل ہے، اسی تأثر کا یہ اثر ہے کہ آج جن لوگوں کو مسلم دانشور کہا جاتا ہے، وہ یہ کہتے ہوئے ذرا نہیں جھجکتے کہ مذہب میرا اپنا ذاتی معاملہ ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ میں چاہوں تواس پر عمل کروں اور چاہوں تو نہ کروں؛ حالاں کہ اُن کی یہ سمجھ غلط ہے؛ کیوں کہ مسلمان کا مطلب ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کے تمام شعبوں میں شریعتِ اسلامی کا پابند ہے، مختار نہیں۔

دوسری قسم مشترک قانون(Common Law) کے نام سے معروف ہے، جو کسی ملک کے تمام باشندوں کے لیے یکساں ہوتے ہیں، اسلام اس تقسیم کا قائل نہیں، انسانی مسائل خواہ انفرادی ہوں یا اجتماعی ، تمدن وثقافت اور مال وزر سے اُن کا تعلق ہو یا اخلاقی بے راہ روی اور جرائم سے ، سب کاحل شریعتِ اسلامیہ نے یکساں طور پر پیش کیا ہے، اور ہر مسلمان پر ان تمام احکام کی پیروی ضروری قرار دی گئی ہے، اس کے قوانین میں شخصی اختیار کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

شریعت کے ان قوانین میں ایسی گہرائی اور لچک ہے کہ اُن کی روشنی میں ہر زمانے ، حتی کہ آج کے اس ترقی پذیر دور میں پیش آمدہ نت نئے مسائل کا حل پیش کیا جاسکتا ہے، اور کیا بھی جارہا ہے ، جیسا کہ دورِ حاضر کے فتاویٰ، اسلامک فقہ اکیڈمیوں اور مجلسوں کے فیصلے اس پر شاہد ہیں۔

ہمارے اس وطنِ عزیز میں رائج قوانین کی دو اہم قسمیں ہیں: سِوِل کوڈ (Civil Code)، اور کریمنل کوڈ(Crimnal Code)، ظاہر ہے اس قسم کے قوانین تمام اہلِ ملک کے لیے یکساں ہیں، ان میں کسی نوعیت کی تفریق ، نسل ومذہب کی بنیاد پر از روئے دستور نہیں کی گئی۔پہلی قسم ”سول کوڈ “ کے دائرہ میں وہ تمام قوانین آتے ہیں جن کا تعلق معاشرتی ، تمدنی اور معاملاتی امور سے ہیاور دوسری قسم میں جرائم کی سزائیں آتی ہیں۔

البتہ سِوِل کوڈ کے ایک حصہ (جسے پرسنل لاء”Personal Law“کہا جاتا ہے) میں ملک کی بعض اقلیتوں کو جن میں مسلمان بھی ہیں، اُن کے مذہب کے لحاظ سے کچھ خصوصی شعبوں میں الگ مذہبی قوانین پر عمل کرنے کا اختیار دیا گیا ہے، جسے ” پرسنل لاء کی آزادی“ کا نام دیا گیا ہے، اسی کے تحت مسلمانوں کو بھی دستور ہند میں یہ حق دیا گیا ہے کہ نکاح ، طلاق ، ایلاء ، ظہار، خلع ، فسخِ نکاح، رضاعت، حضانت اور وقف سے متعلق مقدمات اگر سرکاری عدالتوں میں دائر کیے جاتے ہیں اور دونوں فریق مسلمان ہوں، تو سرکاری عدالتیں اسلامی شریعت کے مطابق ہی فیصلے کریں گی، انہی قوانین کے مجموعے کو ” مسلم پرسنل لاء“ کہا جاتا ہے۔

مسلم پرسنل لاء میں قانون کی ایک دفعہ ” عدت“ ہے؛

طلاق کے بعدآثارِ نکاح ختم ہوجانے کے لیے شریعت نے عورت کے واسطے جو مدت مقرر کی ہے، اُسے عدت کہتے ہیں، مطلقہ کی عدت، اگر اُسے حیض آتا ہے تو مکمل تین حیض ہے، اور اگر کم عمری یا زیادہ عمر کی وجہ سے حیض نہ آتا ہو تو تین قمری مہینے ہیں(فتاویٰ ہندیہ : ۱/۵۲۶ ،اسلام کے عائلی قوانین: ص/۲۱۲) ،عدت کی اِس مدت میں عورت طلاق دینے والے کی طرف سے رہائش ، نفقہ وخرچہ کی حقدار ہے(ہدایہ:۲/۴۲۳)، عدت کے بعد وہ اجنبیہ ہے، اس لیے عدت کے بعد طلاق دینے والے کے ذمہ اُس کی رہائش ونفقہ واجب نہیں ہے۔ (اسلام کے عائلی قوانین: ص/۱۲۲)

سرکاری عدالتیں مسلم مرد اور عورت کے حق میں نفقہٴ عدت سے متعلق اِسی دفعہ کے مطابق فیصلے کی مکلف وپابند ہیں۔

۱۹۸۵ء میں ” شاہ بانو“ مقدمہ کا سپریم کورٹ نے اِس دفعہ کے خلاف یہ فیصلہ دیا تھا کہ اُس کا شوہر عدت کے بعد بھی اُس کے نفقہ وخرچہ کو اُٹھاتا رہے گا، تواِس فیصلے کے مخالفِ شرع ہونے کی وجہ سے تمام ہندوستانی مسلمانوں نے اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی، جس کے نتیجے میں ۱۹۸۶ء میں پارلیمنٹ نے مسلم خواتین کے لیے ایک نیا قانون پاس کیا، جس سے سپریم کورٹ کا وہ فیصلہ کالعدم قرار پایا۔

 اس کے باوجود آج پھر سرکاری عدالتیں نکاح،طلاق اور عدت وغیرہ سے متعلق ایسے فیصلے صادر کررہی ہیں، جو مسلم پرسنل لاء کے خلاف ہیں، جن میں سے ایک عدت کے بعد وجوبِ نفقہ کا فیصلہ بھی ہے، جسے عام زبان میں ” کھاوٴٹی“ سے تعبیر کیا جاتا ہے- کہ عدت کا زمانہ گزر جانے کے بعد بھی طلاق دینے والے پر اِس اجنبیہ کا نفقہ وخرچہ لازم کیا جاتا ہے۔

نکاح،طلاق اور عدت وغیرہ سے متعلق سرکاری عدالتوں کے اِس طرح کے فیصلے جہاں مسلم پرسنل لاء میں مداخلت ہیں، وہیں مسلمانوں کو دستورِ ہند میں حاصل حق سے محروم کرنے اور یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی منصوبہ بند سازش کاحصہ ہے۔

مگر اِس میں ہم مسلمان بھی برابر کے قصوروار ہیں کہ اپنے اِس طرح کے نزاعات وجھگڑوں کو اپنے مذہبی اداروں (دار الافتاء، دار القضاء، شرعی پنچایت) سے حل کرنے کے بجائے سرکاری عدالتوں کا رخ کرتے ہیں ، اور اُنہیں مسلم پرسنل لاء میں مداخلت کے مواقع فراہم کرتے ہیں، جب کہ کسی سرکاری عدالت کے اس فیصلے سے کہ -طلاق دینے والے پر عورت کی عدت کے بعد بھی اُس کا نفقہ وخرچہ لازم ہے- عورت اور اُس کے سرپرستان کے لیے اس نفقہ کا لینا شرعاً درست نہیں ہے، لہٰذا جو شخص اللہ، رسول اور آخرت کی جزا وسزاپر یقین رکھتا ہے اسے چاہیے کہ وہ اپنے معاشرتی ، تمدنی اور معاملاتی امورکو اپنے مذہبی اداروں سے ہی حل کرائے، اسی میں اس کی دنیوی فلاح اور اخروی نجات ہے۔

 اللہ رب العزت کا ارشاد ہے: ﴿فلا وربک لایوٴمنون حتی یحکموک فیما شجر بینھم ثم لا یجدوا فی أنفسھم حرجاً مما قضیت ویسلموا تسلیما﴾ ۔ ”سو آپ کے پروردگار کی قسم ہے کہ یہ لوگ ایماندار نہ ہونگے جب تک یہ لوگ اس جھگڑے میں جو ان کے آپس میں ہو، آپ کو حکم نہ بنالیں اور پھر جو فیصلہ آپ کردیں اس سے اپنے دلوں میں تنگی نہ پائیں اور اس کو پورا پورا تسلیم کرلیں“۔ (سورہٴ نساء: ۶۵)      

اس آیت نے یہ صاف کردیا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت میں مقدمات محض لے آنا ہرگز ایمان کے لیے کافی نہیں، عقلی واعتقادی حیثیت سے اطمینان بھی رسول کے فیصلہ پر ہونا چاہیے، ہاں اس کے بعد بھی کوئی طبعی تنگی باقی رہ جائے تو غیر اختیاری ہونے کی بنا پر معاف ہوگی - حتی یحکموک فیما شجر بینہم - آپ کی حیاتِ مبارک میں تو آپ کا حَکَم بننا ظاہرہی تھا، بعد وفات آپ کی شریعت حَکَم بننے کے لیے کافی ہے، فقہاء نے اس آیت سے استنباط کیا ہے کہ جو کوئی اللہ یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی حکم میں شک وشبہ کرے یا ماننے سے انکار کرے وہ دائرہٴ اسلام سے خارج ہے ۔ وفي ھذہ الآیة دلالة علی أن من ردّ شیئا من أوامر اللہ أو أوامر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فھو خارج من الإسلام ، سواء ردہ من جھة الشک فیہ أو من جھة ترک القبول والامتناع من التسلیم ۔ (جصاص:۲/۲۶۸، تفسیر ماجدی)

***

-----------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 3 ‏، جلد: 97 ‏، جمادی الاولی 1434 ہجری مطابق مارچ 2013ء